استخارہ کی حقیقت:ہم اکثر غلط فہمی میں رہتے ہیں۔لوگوں نے فرض کررکھاہے کہ ہم استخارہ کریں گے تو ہمیں ایک بابا جی نظر آئیںگے انہوں نے بڑا سا چوغہ پہن رکھا ہوگا اور ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہوں گے‘نہیں !اللہ والو ایسا نہیں ہے ۔استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُس بات کو،اُس عمل یا اُس کام کے متعلق آپ کے دل میں توجہ ڈال دیں،اپنی خیر آپ کے دل میں ڈال دیں۔اللہ کا اُس کام کیلئے آپ کو متوجہ کردینا اس کو استخارہ کہتے ہیں اور اس کیلئے سچی تڑپ کا ہونا ضروری ہے۔اللہ والوں کی باتیں قیمتی موتی ہوتی ہیں ان کو توجہ سے سناکریں۔سچی تڑپ:تو وہ اللہ والے فرمانے لگے: میری محفل روزانہ ہوتی ہے اس میں اللہ کا نام سکھایا جاتاہے ،اللہ کا ذکر ہوتاہے۔پہلے چالیس دن اس محفل میں آپھر اس کے بعد میں تجھے بتاؤں گا کہ سورۃ فاتحہ کیسے تیرے لیے اسم اعظم بنے گی؟اس نے کہا ٹھیک ہے ۔اللہ والو!اگر طلب سچی ہو،تڑپ سچی ہوتو چالیس دن کیا چالیس سال بھی آنا آسان لگتاہے اور اگر طلب سچی نہ ہو،تڑپ اور لگن سچی نہ ہو تو اللہ والوں میں آدمی کو کیڑے نظر آتے ہیں ،اعتراض نظر آتے ہیں ،کمی کوتاہیاں نظر آتی ہیں اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا،یہ میں آپ کو حقیقت عرض کررہاہوں۔
چالیس دن کا مجاہدہ:ایک تجربہ کی بات عرض کرتاہوں ،مجھ فقیر کا بھی تجربہ ہے میرے مرشد سید محمد عبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تجربہ ہے اور بڑے بڑے اللہ والوں کا بھی مشاہدہ ہے کہ کوئی بھی عمل اگر آپ باقاعدگی سے چالیس دن کرلیں تو وہ عمل حیرت انگیز اثرات والا ہوجاتاہےلیکن تجربہ یہ ہے کہ باقاعدگی وشرائط سے کسی عمل کو مسلسل چالیس دن کرنا ناممکن نہیں تو کم ازکم مشکل ترین ضرور ہے۔عموماً کوئی عمل چالیس دن آدمی نہیں کرپاتا ۔کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ جاتی ہے ۔جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے چالیس دن پانچوں وقت کی نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھنی ہے پڑھنے والے پڑھ بھی لیتے ہیں ناممکن نہیں ہے لیکن مشکل ضرور ہے۔ چنانچہ ان بزرگ نے اس شخص کو چالیس دن اپنی محفل میں آنے کو کہا۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے چالیس دن اس شخص کو اپنی محفل میں کیوں بلایا تھا؟
اللہ والوں کی دل کی دنیاپر محنت:اس شخص کو اس لیے بلایا تھاکہ اس عمل کے لینے کی ان کے اندر استعداد پیدا ہوجائے۔ یہ جو اللہ والے، فقیر بار بار کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آؤہماری مجلس ،ہماری محفل میں آیا کرو دراصل اللہ والے دل کی دنیا ،دل کی زمین کو تیار کرنااور نرم کرنا چاہتے ہیں،اللہ والوں کے پاس بار بار آنے سے دل کی زمین نرم ہوتی ہے جب دل کی زمین نرم ہوتی ہے توپھر اس کے اندر جو بھی بیج ڈالیں چاہے وہ اعلی ہوں یا گھٹیافصل اعلیٰ ہوگی اور جس کے دل کی زمین سخت ہوگی ،سیاہ ہوگی اس میں اعلیٰ یا اچھا بیج ڈالیں اس کا فائدہ نہ ہوگا،اس کی فصل نہیں اُگے گی ۔
اب چالیس دن کے بعد وہ شخص کہنے لگے کہ:’’ مجھے آپ کے حکم کے مطابق چالیس دن ہوگئے ہیںاب آپ بتائیں کہ سورۃ فاتحہ کس طرح میرے لیے اسم اعظم بنے گی؟‘‘بزرگ آنکھیں بند کر کے فرمانے لگے:تونے چالیس دن گن کر گزارے ہیں؟ اس شخص نے کہا: ’’آپ نے خود ہی کہا تھا کہ چالیس دن میری مجلس میں آ‘‘ اللہ والے نے کہا: ’’میںنے چالیس دن گننے کو نہیںکہاتھابلکہ اللہ کی محبت اور تعلق پیدا کرنے کیلئے کہاتھاتو صرف دن گنتارہااللہ کے ساتھ تیرا تعلق پیدا ہی نہیں ہوا تیرے دل کی دنیا میں وہ استعداد پیدا ہی نہیںہوئی کہ میں تجھے وہ موتی دے سکوں۔‘‘ اللہ والے بزرگ نے کہا :’’پھر سے محفل میں آنا شروع کراوراللہ تعالیٰ کا تعلق پیدا کر ،محبت پیدا کر جیسے مجنوں نے لیلیٰ سے محبت ، عشق کیا تھاتو بھی پاگل ہو کر دیوانہ ہو کر اللہ سے محبت اور تعلق پیدا کر‘‘اس شخص کی طلب سچی تھی ،اس کی لگن سچی تھی اس نے کہا ٹھیک ہے! میں پھراس محفل میں آؤںگا۔اگر اس کی طلب سچی نہ ہوتی تو کہتا آپ کی نیت ہی خراب ہے آپ مجھے کچھ دینا ہی نہیں چاہتے۔وہ شخص محفل میں آتا رہا اور اللہ والے گنتے رہے ،پہلے اس شخص نے گنا تھا اب اللہ والے گنتے رہے۔جب چالیس دن ہوئے وہ شخص حاضری دے کر جارہاتھا!اللہ والے نے بلایا اور پوچھا کتنے دن ہوگئے ہیں؟ اس نے کہا پتہ نہیںشائد چند دن ہوگئے ہیں۔اللہ والے نے کہا : ’’نہیں! چالیس دن ہوگئے ہیں۔‘‘اللہ والے نے کہا: ’’میں تجھے بتاتاہوں کہ سورۃ فاتحہ تیرے لیے اسم اعظم کیسے بنے گی تو تین کام کرلے۔‘‘
حلال کا لقمہ :اللہ والے نے کہا:’’سب سے پہلی چیز تو رزق حلال کا لقمہ کھا۔‘‘ہمارے معاشرے میں حلال اور حرام کی تمیز ہی مٹ گئی ،دل کے جذبوں سے یہ بات ہی چلی گئی کہ مال اور رزق حلال ہے یا حرام۔جب سے ہم نے سفید کپڑے پہننا چھوڑے ہیںتب سے ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارے ساتھ کونسی میل، کونسا گناہ لگا ہوا ہے۔ہمارے حضرت سید محمد عبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ: ’’ہم سارے ورکشاپیے ہیں‘‘ورکشاپ والوں کے کپڑے بہت کالے اور میلے ہوتے ہیں،کالا تیل ،گریس اور نجانے کیا کچھ ان کے کپڑوں پر لگ جاتاہے ان کو پتا نہیں چلتا۔ ہمارے حضرت سیدمحمد عبداللہ ہجویر ی رحمۃ اللہ علیہ سفید کپڑے پہننے کی ترغیب دیتے تھے کیونکہ یہ سنت ہے۔
دوسری چیز سورۃ فاتحہ کو کثرت کے ساتھ نیک لوگوں کے مجمع میں جا کر پڑھنااور تیسرا گناہوں سے بچنا ،چاہے وہ بڑے گناہ ہوں یا چھوٹے۔نیک لوگوںکا مجمع:سورۃ فاتحہ کو نیک لوگوں کے مجمع میںجا کر کثرت سے پڑھنا بہت بڑا راز اور گہری بات ہے۔اس میں راز یہ ہے کہ نیک لوگوں کے مجمع میںکوئی نیک آدمی ہوگا جسے اللہ جل شانہٗ نے سورۃ فاتحہ کی تاثیر دے دی ہوگی۔اُس کے طفیل اللہ تعالیٰ اس کوبھی اس کی تاثیر عطا کردیں گے۔ کیونکہ بعض اوقات بھری مسجد میں ایک نمازی ایسا ہوتاہے جس کی وجہ سے تمام نمازیوں کی نماز قبول ہوجاتی ہے اور بعض بزرگوں نے کہا کہ تمام حاجیوں میں سے ایک حاجی ایسا ہوتاہے کہ جس کی لبیک قبول ہوتی ہے ۔اُس نمازی اور اُس حاجی کی وجہ سے باقی سب کی عبادت بھی قبول ہوجاتی ہے ۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں